أبو بكر السلفي: رفع الیدین کرنے اور نا کرنے والوں کے دلایل کا جایزہ
رفع الید ین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت ہے لیکن میرے سامنے تبلیغی جماعت کے لوگوں نے اسے بڑا مشکوک سا مسئلہ بنا کے رکھ دیا۔میں نے رفع الید ین کرنے والوں سے کرنے کے دلائل لئے اور تبلیغی جماعت کے
علماءکے پاس چلا گیا اور یہ دلائل دکھا کر نہ کرنے کے دلائل کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے مجھے قرآن وسنت کے بجائے عقلی دلائل سے مطمئن کرنے کی کو شش کی۔بہر حال میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ تبلیغی جماعت کو اس سنت سے سب سے زیادہ نفرت ہے یہ لوگ موسیقی و فحاشی اور ہر برائی کو اپنے سامنے برداشت کر سکتے ہیں لیکن کسی کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی رفع الید ین کرتے نہیں دیکھ سکتے (تجربہ کر کے دیکھ لیں)۔
آئیے رفع الیدین کرنے اور نہ کرنے کے دلائل کا موزانہ کرتے ہیں بھلا آپ کس نتیجہ پر پہنچے ہیں؟
رفع الیدین کرنے کے دلائل
عن ابن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یر فع ید یہ حذو منکبیہ اذا فتتح الصلو ة و اذا کبر للر کو ع و اذا رفع راسہ من الر کوع رفعھماکذ لک و قا ل سمع اللہ لمن حمدہ ربنا و لک الحمد و کان لا یفعل ذلک فی السجود
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی تکبیر ة الاولیٰ مع الافتتاح سوائً)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو دو نوں ہاتھ کند ھوں تک اٹھاتے اور جب رکو ع کی تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہتے اور سجدوں میں یسا نہ کرتے"۔
عن ابن عمر ریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام فی الصلوة رفع ید یہ حتی تکونا حذو منکبیہ وکان یفعل ذلک حین یکبر للر کوع ویفعل ذلک اذا رفع راسہ من الر کوع ویقول سمع اللہ لمن حمدہ ولا یفعل ذلک فی السجود ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز میں کھڑے ہو تے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تب بھی یسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی یسا ہی کرتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور سجدوں میں یسا نہ کرتے"۔
عن ابی قلا بہ انہ رای مالک بن الحو یرث اذا صلی کبر ورفع ید یہ و اذا ارا دان یرکع رفع ید یہ و اذا رفع راسہ من الر کوع رفع ید یہ و حد ث ان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صنع ھکذا ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
"حضرت ابی قلابہ کہتے ہیں کہ انھوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا جب وہ نماز شروع کرتے اللہ اکبر کہتے اور رفع الید ین کرتے اور جب رکوع کرنے لگتے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے اور بیان کرتے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یسے ہی کرتے دیکھا "۔
عن عبداللہ ابن عمر ریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم افتتح التکبیر فی الصلو ة فر فع ید یہ حین یکبر حتی یجعلھماحذو منکیبہ و اذا کبر للر کوع فعل مثلہ واذقال سمع اللہ لمن حمدہ فعل مثلہ وقال ربناولک الحمد ولا یفعل ذلک حین یسجد ولا حین یر فع راسہ من السجود ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز کے شروع میں تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کی تکبیر کے وقت بھی یسا ہی کیا اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو بھی یسا کیا اور ربنا ولک الحمد فرمیا اور سجدہ کو جاتے اور سر اٹھاتے وقت یسا نہ کرتے"۔
عن نافع ان ابن عمرکان اذا دخل فی الصلوة کبر ورفع ید یہ و اذا رکع رفع ید یہ و اذا قال سمع اللہ لمن حمدہ رفع ید یہ و اذا قام من الرکعتین رفع ید یہ ورفع ذلک ابن عمر الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
" حضرت نا فع سے مر وی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب نماز میں داخل ہو تے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین کرتے اور جب رکو ع کر تے تب بھی رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی رفع الید ین کر تے اور جب دو رکعتیں پڑھ کرا ٹھتے تب بھی رفع الیدین کر تے اور ابن عمر نے فر ما یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یسا ہی کر تے تھے "۔
عن عبداللہ ابن عمر قال ریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع ید یہ حتی یحا ذی منکبیہ وقبل ان یر کع واذا رفع من الرکو ع ولا یرفعھما بین السجدتین
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب استحباب رفع الیدین۔۔۔۔۔۔)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت ہے کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نما ز شروع کر تے کندھو ں کے برا بر ہا تھ اٹھا تے ا و ر رکوع جا تے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے بھی رفع الید ین کر تے اور سجد وں کے درمیان رفع الید ین نہ کر تے "۔
عن عبدا للہ ابن عمر قال کان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذاقام للصلو ة رفع یدیہ حتی تکو نا بحذ و منکبیہ ثم کبر فاذا ارا د ان یر کع فعل مثل ذلک ولا یفعلہ حین یر فع راسہ من السجو د۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب استحباب رفع الیدین۔۔۔۔۔۔)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نما ز کے لئے کھڑ ے ہوتے تو کند ھوں کے برابر ہا تھ اٹھا تے ہو ئے تکبیر کہتے اور جب رکو ع کا ارادہ فرماتے اسی طرح کر تے ا ور جب رکو ع سے اٹھتے تب بھی یسا ہی کر تے لیکن سجد وں سے سر اٹھا تے وقت یسا نہ کر تے تھے"۔
عن ابی قلا بہ انہ رای ما لک بن الحو یر ث اذا صلی کبر ثم رفع یدیہ واذا ارادان یر کع رفع یدیہ واذا رفع راسہ من الرکوع رفع ید یہ وحدث ان رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کان یفعل ھکذا ۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب استحباب رفع الیدین۔۔۔۔۔۔)
"حضرت ابو قلا بہ فرما تے ہیں کہ انہو ں نے مالک بن حو یر ث رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا جب نما ز پڑھتے تکبیر کہتے پھر رفع الیدین کرتے اور جب رکو ع کا ارادہ کر تے تورفع الیدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھا تے تو بھی رفع الیدین کر تے اور فر ما یا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسے ہی کیا کرتے تھے"۔
عن مالک بن الحو یرث ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا کبررفع ید یہ حتی یحاذی بھما اذ نیہ و اذارکع رفع یدیہ واذا رفع حتیٰ یحاذی بھما اذنیہ واذا رفع راسہ من الر کو ع فقا ل سمع اللہ لمن حمدہ فعل مثل ذلک۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة )
"حضرت مالک بن حو یرث رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ کا نوں تک اٹھا تے اور جب رکوع کر تے تب بھی دونوں ہا تھ کانوںتک اٹھاتے اور رکوع سے سر اٹھا تے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور رفع الیدین کرتے "۔
عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدیہ حین دخل فی الصلوة کبر و صف ھمام حیال اذنیہ ثم التحف بثوبہ ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری فلما اراد ان یرکع اخرج یدیہ من الثوب ثم رفعھما ثم کبر فرفع فلما قال سمع اللہ لمن حمدہ رفع یدیہ فلما سجد سجدبین کفیہ ۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ۔۔۔۔۔۔)
"حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز میں تکبیر کہتے ہوئے داخل ہوتے تو رفع الدین کرتے (راوی حدیث) ھمام کا بیان ہے کہ دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر چادر اوڑھ لی پھر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا پھر رکوع کا ارادہ کیا تو چادر سے دونوں ہاتھ نکال کر رفع الیدین کیا اور تکبیر پڑھ کر رکوع کیا پھر سمع اللہ لمن حمدہ پڑھ کر رفع الیدین کیا پھر دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا "۔
عبدالحمید بن جعفر قال حدثنا محمد بن عمرو بن عطاءقال سمعت ابا حمید الساعدی فی عشرة من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیھم ابو قتادہ فقال ابو حمید :انا اعلمکم بصالة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالو الم فواللہ ماکنت اکثر لہ تبعہ ولا اقدمنا لہ صحبة؟ قال بلی قالوا ! فاعرض قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام الی الصلاة کبر ثم رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ و یقیم کل عظم فی موضعہ ثم یقراثم یر فع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یر کع ویضع راحتیہ علی رکبتیہ معتدلا لا یصوب راسہ ولا یفتح بہ (ثم یرفع راسہ فیہ) یقول سمع اللہ لمن حمدہ و یرفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ (قال زبیر :فذکر الحدیث ثم قال)ثم اذا قام من الرکعتین رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ کما صنع عند افتتاح الصلوة (قال زبیر :ثم ذکر الحدیث و فیہ)فقالو ا :صدقت ھکذا کان یصلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم
(سنن الترمذی۔ سنن ابو داﺅد۔کتاب الصلوة۔باب افتتاح الصلوة)
"عبدالحمید بن جعفر نے کہا میں نے محمد بن عمرو بن عطاءسے سنا' اس نے کہا میں نے ابو حمید الساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے دس صحابیوں میں سنا جن میں ابو قتادہ بھی تھے ۔ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جانتا ہوں ۔انہوں نے کہا :(آپ نہ تو ہم سے پہلے مسلمان ہوئے )آپ نے ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار نہیں کی ہے اور نہ ہم سے زیادہ ان کی اتباع کی ہے ابو حمید نے کہا یہ ٹھیک ہے تو انہوں نے کہا:اچھا پیش کرو۔ ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور ہر ہڈی اپنی جگہ پر ٹھہر جاتی۔پھر قر Éت کرتے' پھر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے 'پھر رکوع کرتے اور اپنی ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے ' رکوع میں نہ سر اونچا رکھتے اور نہ نیچا رکھتے پھر سر اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور دونو ں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ اپنے کندھوں تک اٹھاتے جیسے نماز کے شروع میں کرتے تھے ۔( دس کے دس ) صحابہ نے کہا آپ نے سچ کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے"۔
رایت ابا ھریرة فقال:لا صلین بکم صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ازید فیھا ولا انقص ' فاقسم باللہ وان کانت لھی صلاتہ حتی فارق الدنیا قال فقمت عن یمینہ لانظر کیف یصنع فابتدا فکبر ورفع یدیہ ثم رکع فکبر ورفع یدیہ ثم سجد ثم کبر ثم سجد و کبر حتی فرغ من صلاة قال:اقسم باللہ ان کانت لھی صلاة حتی فارق الدنیا ۔
(کتا ب ا لمعجم لامام ابن الاعرابی)
"حضرت ابو ھریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایامیں آپ کو ضروررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاﺅں گا اس میں نہ زیادہ کروں گا اور نہ کم ۔پس انہوں نے اللہ کی قسم اٹھا کر کہا کہ آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔راوی نے کہا میں آپ کی دائیں طرف کھڑا ہو گیا تا کہ دیکھوں کہ آپ کیا کرتے ہیں پس انہوں نے نماز کی ابتدا کی۔اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ' پھر رکوع کیا ' پس رکوع کے بعد آپ نے اللہ اکبر اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر سجدہ کیا پھر اللہ اکبر کہا اور پھر سجدہ کیا اور اللہ اکبر کہا حتی کہ آپ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے "۔
مولانا انور شاہ کاشمیری (صدر مدرس دارالعلوم دیو بند )کے خاندان کے چشم و چراغ ' معروف عالم دین سید عتیق الرحمن شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے کراچی کے دیو بندی مکتبہ فکر کے عظیم خطیب و رہنما سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رفع الیدین کی حدیث بخاری میں نہیں ۔ میں بخاری شریف لے آیا اور کھول کر سامنے رکھی کہ یہ حدیث پڑھیں تو مولانا پڑھ رہے تھے اور ساتھ ماتھا پسینے سے شرابور تھا اور حدیث پڑھنے کے بعد فرمایا کہ بخدا مجھے معلوم نہ تھا کہ بخاری شریف میں رفع الیدین کرنے کی حدیث موجود ہے۔اس واقعہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا کہ بخاری شریف کی اتنی معروف حدیث اور ایک بڑے عالم کی بے خبری ۔
ترک رفع الیدین کے دلائل
(۱) عن علقمہ قال قال عبداللہ ابن مسعود الا اصلی بکم صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرة ۔
( جامع الترمذی ۔کتاب الصلوة۔ باب رفع الیدین عند الرکوع)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
ََ"میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاﺅں پھر آپ نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہیں اٹھائے سوائے پہلی دفعہ کے "۔
مندر جہ ذیل ائمہ و محدثین کرام نے اسے ضعیف قرارد یا ہے ۔
عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے کہا
ابن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ثابت نہیں ہے ۔( سنن ترمذی۱/59)
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔ ( فتح الباری ص۰23ج۱)
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ۔(التمہید ابن عبدالبرص217ج۹)
امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔( تلخیص الجبیر ص222ج۱)
ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ روایت حقیقت میں سب سے زیادہ ضعیف ہے ۔ ( تلخیص الجبیر ص222ج۱)
ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے اس روایت کو خطاءقرار دیا ۔( نیل الاو طار ص202ج۲)
امام ابو داﺅد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ روایت ثابت نہیں ۔ ( سنن ابی داود نسخہ حمصیتہ ج1ص478'748)
یحییٰ بن آدم ' ابو بکر احمد بن عمر البزار ' محمد بن وضاح ' یحییٰ بن معین ' ابن المقلن ' امام حاکم ' امام النووی ' امام دارمی ' امام بیہقی ' محمد بن نصر المروزی ' ابن قدامہ المقدسی اور ابن عبدالبر نے ضعیف قرارد یا ہے۔
امام بخاری نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔( تلخیص الجبیر1/222)
یہ سب ائمہ حدیث ثقہ ' مستند اور غیر جانب داری و عدم تعصب میں سورج سے بھی زیادہ مشہور تھے۔ان کا اس روایت کومتفقہ طور پر ضعیف قرار دینا ہر لحاظ سے مقدم ہے ۔امام ترمذی و ابن حزم نے اس روایت کو صحیح قرارد یا ہے ۔
(۲) عن البراء بن عاذب رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا کبر لا فتتاح الصلوة رفع یدیہ حتی یکون ابھا ماہ قریبا من شحمتی اذنیہ ثم لا یعود ۔
( معانی الاثار للطحاوی ص224ج۱)
(۳) عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فتتح الصلوة رفع یدیہ حتی یحاذی بھما ' وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا ارادا ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع ' لا یر فعھما و قال بعضھم ولا یرفع بین السجدتین والمعنی واحد ۔
( مسند ابی عوانہ )
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور رکوع سے اٹھتے تو ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے اور سجدوں کے درمیان بھی نہیں اٹھاتے تھے "۔
(ترجمہ مفتی یوسف لدھیانوی حنفی)
قارئین کرام ! مفتی صاحب نے اس روایت کا ترجمہ غلط کیا ہے وجہ اس کی وہ خود جانتے ہوں گے کہ ایسا بے علمی کی وجہ سے ہوا ہے یا جان بوجھ کر یہودیوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے زبردستی غلط مطلب اخذ کرنے کی کوشش بے سود کی ۔اس حدیث کا صحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ کندھوں کے قریب کرتے اور بعضوں نے کہا اپنے دونوں کانوں تک اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے اٹھتے۔نہیں اٹھاتے ان دونوں کو بعضوں نے کہا نہ اٹھاتے دونوں سجدوں کے درمیان اور مطلب ایک ہے"۔
روایت میں یر فعھما کا تعلق رکوع کے وقت رفع الیدین سے نہیں بلکہ اس کا تعلق راویوں کے اختلاف سے ہے کہ کسی نے لا یرفعھما کہا ہے اور کسی نے لا یر فع بین السجد تین کہا ہے اور امام ابو عوانہ نے والمعنی واحد کہہ کر واضع کر دیا ہے کہ دونوں صورتوں میں دونوں سجدوں کے درمیان رفع الید ین کی نفی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الید ین کی۔
امام ابو عوانہ رحمتہ اللہ علیہ ا س حدیث کو باب رفع الید ین فی افتتاح الصلو ة قبل التکبیر بحذاءمنکبیہ وللر کو ع ولر فع راسہ من الر کوع وانہ لا یرفع بین السجدتین میں لائے ہیں یعنی اسی رویت سے امام ابو عوانہ نے رفع الیدین عند الر کوع اور بعد الرکوع کا بھی ثبوت فراہم کیا ہے یعنی یہ حدیث تو اثبات رفع الید ین کی زبر دست دلیل ہے لیکن حنفیوں کا عقل سے کتنا بیر ہے ان کے خیال میں امام ابو عوانہ با ب باندھ رہے ہیں رفع الید ین کرنے کا اور دلیل دے رہے ہیں رفع الید ین نہ کرنے کی۔ یسے تضاد کی توقع کسی محدث سے کیا کسی کند ذہن سے بھی نہیں کی جا سکتی ۔
(4)حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری قال:اخبر نی سالم بن عبداللہ عن ابیہ قال:رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا ارادا ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع ولا یرفع بین السجدتین ۔
( مسند حمیدی نسخہ ظاھریہ تاریخ نوشت 689)
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تودونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے اور اس سے سراٹھاتے اور سجدوں کے درمیان نہ اٹھاتے "۔
جب کہ حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی نے مسند الحمیدی کو نسخہ دیوبندیہ (تاریخ نوشت 1324ھ) گوجرانوالہ سے شائع کر کے مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ کا نام لکھ دیا اور رفع الیدین کی اس حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا ارادا ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفع بین السجدتین ۔
( مسند حمیدی نسخہ دیو بندیہ تاریخ نوشت1324ھ)
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے اور اس سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین نہ کرتے اور نہ سجدوں کے درمیان "۔
اس روایت میں فلایرفع کا اضافہ کر کے رفع الیدین کے اثبات کی روایت کو نفی میں بدل کر رکھ دیا ہے نیز سند میں سفیان کا واسطہ عجلت میں رہ گیا جس سے سند منقطع ہو کر ناقابل حجت بن گئی ۔ بعد میں سند کی تصحیح تو کر دی گئی لیکن مر جع بیان نہ کیا گیا اگر ایساہوتا تو جہاں سند کی تصحیح ہو ئی وہاں متن کی تصحیح بھی ہو جاتی ۔
مسند حمیدی کا جو نسخہ ظاہر یہ دمشق میںمکتبہ ظاہریہ میں ہے اس میں فلا یرفع کے الفاظ نہیں ہیں اور نسخہ ظاہریہ کی تصاویر مکہ مکرمہ میں بھی ہیں۔نسخہ ظاہریہ تمام نسخوں سے زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے ۔
(5) محمد بن جابر عن حماد عن ابراھیم عن علقمہ عن عبداللہ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومع ابی بکر و مع عمر رضی اللہ عنہما فلم یرفعوا ایدیھم الا عند التکبیر ة الاولی فی افتتاح الصلوة ۔
( سنن دارقطنی ص295ج ۱)
"محمد بن جابر نے اس من گھڑت سند کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نماز پڑھی وہ شروع نماز میں تکبیر تحریمہ کے سوا ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے "۔
اس روایت میں محمد بن جابر ایک راوی ہے جسے مندرجہ ذیل ائمہ و محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ احمد بن حنبل ' یحییٰ بن معین ' امام بخاری ' ابو داﺅد ' نسائی ' ابن حبان ' دارقطنی ' بیہقی ' (تہذیب التہذیب)
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:
خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ما لی ارکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنو فی الصلوة۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة باب الامر بالسکون فی الصلوة )
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں نماز میں سکون اختیار کرو"۔
"حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس سے اگلی حدیث میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ختم نماز پر السلام علیکم کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوتی ہیں ۔ تم میں سے جب کوئی نما ز ختم کرے تو اپنے بھائی کی طرف منہ کر کے صرف زبان سے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے"۔( صحیح مسلم )
٭آج کا حنفی عالم حدیث کی صحیح و ضاحت کر سکتا ہے یا صحابی رسول ؟
٭اگر اس حدیث کے الفاظ کو متنازعہ رفع الدین پر محمول کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ رفع الیدین ایک قبیح عمل ہے چونکہ رفع الیدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے با سند صحیح تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور نبی قبیح فعل کا مرتکب نہیں ہوتا ۔تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کا رکوع والے رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ورنہ نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو قبیح تسلیم کرنا پڑے گا جس کے تصور سے ہی ہم پناہ مانگتے ہیں ۔
٭ تمام محدثین کا اس پر حقیقی اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے اور انہوں نے اس حدیث پر سلام کے ابواب باندھے ہیں ۔
(1) مسلم (2) ابو داﺅد (3) کتاب الام للشافعی (4) نسائی (5) طحاوی (6) بیہقی
٭ امام بخاری فرماتے ہیں یہ بات مشہور ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کیساتھ ہے ۔( تلخیص الجبیر ج۱ص221)
٭احناف کو سنت متواترہ رفع الیدین تو سکون کیخلاف معلوم ہوتا ہے لیکن فقہ حنفی کے مطابق نماز میں جانور کو چمکارنا ' گدھے کو ہانکنا اور پرندوں پر پتھر پھینکنا خلاف سکون نظر نہیں آتا ۔
--
آئیے رفع الیدین کرنے اور نہ کرنے کے دلائل کا موزانہ کرتے ہیں بھلا آپ کس نتیجہ پر پہنچے ہیں؟
رفع الیدین کرنے کے دلائل
عن ابن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یر فع ید یہ حذو منکبیہ اذا فتتح الصلو ة و اذا کبر للر کو ع و اذا رفع راسہ من الر کوع رفعھماکذ لک و قا ل سمع اللہ لمن حمدہ ربنا و لک الحمد و کان لا یفعل ذلک فی السجود
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی تکبیر ة الاولیٰ مع الافتتاح سوائً)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو دو نوں ہاتھ کند ھوں تک اٹھاتے اور جب رکو ع کی تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہتے اور سجدوں میں یسا نہ کرتے"۔
عن ابن عمر ریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام فی الصلوة رفع ید یہ حتی تکونا حذو منکبیہ وکان یفعل ذلک حین یکبر للر کوع ویفعل ذلک اذا رفع راسہ من الر کوع ویقول سمع اللہ لمن حمدہ ولا یفعل ذلک فی السجود ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز میں کھڑے ہو تے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تب بھی یسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی یسا ہی کرتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور سجدوں میں یسا نہ کرتے"۔
عن ابی قلا بہ انہ رای مالک بن الحو یرث اذا صلی کبر ورفع ید یہ و اذا ارا دان یرکع رفع ید یہ و اذا رفع راسہ من الر کوع رفع ید یہ و حد ث ان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صنع ھکذا ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
"حضرت ابی قلابہ کہتے ہیں کہ انھوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا جب وہ نماز شروع کرتے اللہ اکبر کہتے اور رفع الید ین کرتے اور جب رکوع کرنے لگتے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے اور بیان کرتے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یسے ہی کرتے دیکھا "۔
عن عبداللہ ابن عمر ریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم افتتح التکبیر فی الصلو ة فر فع ید یہ حین یکبر حتی یجعلھماحذو منکیبہ و اذا کبر للر کوع فعل مثلہ واذقال سمع اللہ لمن حمدہ فعل مثلہ وقال ربناولک الحمد ولا یفعل ذلک حین یسجد ولا حین یر فع راسہ من السجود ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز کے شروع میں تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کی تکبیر کے وقت بھی یسا ہی کیا اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو بھی یسا کیا اور ربنا ولک الحمد فرمیا اور سجدہ کو جاتے اور سر اٹھاتے وقت یسا نہ کرتے"۔
عن نافع ان ابن عمرکان اذا دخل فی الصلوة کبر ورفع ید یہ و اذا رکع رفع ید یہ و اذا قال سمع اللہ لمن حمدہ رفع ید یہ و اذا قام من الرکعتین رفع ید یہ ورفع ذلک ابن عمر الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(صحیح البخاری ۔کتاب الاذان)
" حضرت نا فع سے مر وی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب نماز میں داخل ہو تے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین کرتے اور جب رکو ع کر تے تب بھی رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی رفع الید ین کر تے اور جب دو رکعتیں پڑھ کرا ٹھتے تب بھی رفع الیدین کر تے اور ابن عمر نے فر ما یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یسا ہی کر تے تھے "۔
عن عبداللہ ابن عمر قال ریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع ید یہ حتی یحا ذی منکبیہ وقبل ان یر کع واذا رفع من الرکو ع ولا یرفعھما بین السجدتین
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب استحباب رفع الیدین۔۔۔۔۔۔)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت ہے کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نما ز شروع کر تے کندھو ں کے برا بر ہا تھ اٹھا تے ا و ر رکوع جا تے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے بھی رفع الید ین کر تے اور سجد وں کے درمیان رفع الید ین نہ کر تے "۔
عن عبدا للہ ابن عمر قال کان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذاقام للصلو ة رفع یدیہ حتی تکو نا بحذ و منکبیہ ثم کبر فاذا ارا د ان یر کع فعل مثل ذلک ولا یفعلہ حین یر فع راسہ من السجو د۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب استحباب رفع الیدین۔۔۔۔۔۔)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نما ز کے لئے کھڑ ے ہوتے تو کند ھوں کے برابر ہا تھ اٹھا تے ہو ئے تکبیر کہتے اور جب رکو ع کا ارادہ فرماتے اسی طرح کر تے ا ور جب رکو ع سے اٹھتے تب بھی یسا ہی کر تے لیکن سجد وں سے سر اٹھا تے وقت یسا نہ کر تے تھے"۔
عن ابی قلا بہ انہ رای ما لک بن الحو یر ث اذا صلی کبر ثم رفع یدیہ واذا ارادان یر کع رفع یدیہ واذا رفع راسہ من الرکوع رفع ید یہ وحدث ان رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کان یفعل ھکذا ۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب استحباب رفع الیدین۔۔۔۔۔۔)
"حضرت ابو قلا بہ فرما تے ہیں کہ انہو ں نے مالک بن حو یر ث رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا جب نما ز پڑھتے تکبیر کہتے پھر رفع الیدین کرتے اور جب رکو ع کا ارادہ کر تے تورفع الیدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھا تے تو بھی رفع الیدین کر تے اور فر ما یا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسے ہی کیا کرتے تھے"۔
عن مالک بن الحو یرث ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا کبررفع ید یہ حتی یحاذی بھما اذ نیہ و اذارکع رفع یدیہ واذا رفع حتیٰ یحاذی بھما اذنیہ واذا رفع راسہ من الر کو ع فقا ل سمع اللہ لمن حمدہ فعل مثل ذلک۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة )
"حضرت مالک بن حو یرث رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ کا نوں تک اٹھا تے اور جب رکوع کر تے تب بھی دونوں ہا تھ کانوںتک اٹھاتے اور رکوع سے سر اٹھا تے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور رفع الیدین کرتے "۔
عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدیہ حین دخل فی الصلوة کبر و صف ھمام حیال اذنیہ ثم التحف بثوبہ ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری فلما اراد ان یرکع اخرج یدیہ من الثوب ثم رفعھما ثم کبر فرفع فلما قال سمع اللہ لمن حمدہ رفع یدیہ فلما سجد سجدبین کفیہ ۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة ۔باب وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ۔۔۔۔۔۔)
"حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز میں تکبیر کہتے ہوئے داخل ہوتے تو رفع الدین کرتے (راوی حدیث) ھمام کا بیان ہے کہ دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر چادر اوڑھ لی پھر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا پھر رکوع کا ارادہ کیا تو چادر سے دونوں ہاتھ نکال کر رفع الیدین کیا اور تکبیر پڑھ کر رکوع کیا پھر سمع اللہ لمن حمدہ پڑھ کر رفع الیدین کیا پھر دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا "۔
عبدالحمید بن جعفر قال حدثنا محمد بن عمرو بن عطاءقال سمعت ابا حمید الساعدی فی عشرة من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیھم ابو قتادہ فقال ابو حمید :انا اعلمکم بصالة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالو الم فواللہ ماکنت اکثر لہ تبعہ ولا اقدمنا لہ صحبة؟ قال بلی قالوا ! فاعرض قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام الی الصلاة کبر ثم رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ و یقیم کل عظم فی موضعہ ثم یقراثم یر فع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یر کع ویضع راحتیہ علی رکبتیہ معتدلا لا یصوب راسہ ولا یفتح بہ (ثم یرفع راسہ فیہ) یقول سمع اللہ لمن حمدہ و یرفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ (قال زبیر :فذکر الحدیث ثم قال)ثم اذا قام من الرکعتین رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ کما صنع عند افتتاح الصلوة (قال زبیر :ثم ذکر الحدیث و فیہ)فقالو ا :صدقت ھکذا کان یصلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم
(سنن الترمذی۔ سنن ابو داﺅد۔کتاب الصلوة۔باب افتتاح الصلوة)
"عبدالحمید بن جعفر نے کہا میں نے محمد بن عمرو بن عطاءسے سنا' اس نے کہا میں نے ابو حمید الساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے دس صحابیوں میں سنا جن میں ابو قتادہ بھی تھے ۔ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جانتا ہوں ۔انہوں نے کہا :(آپ نہ تو ہم سے پہلے مسلمان ہوئے )آپ نے ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار نہیں کی ہے اور نہ ہم سے زیادہ ان کی اتباع کی ہے ابو حمید نے کہا یہ ٹھیک ہے تو انہوں نے کہا:اچھا پیش کرو۔ ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور ہر ہڈی اپنی جگہ پر ٹھہر جاتی۔پھر قر Éت کرتے' پھر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے 'پھر رکوع کرتے اور اپنی ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے ' رکوع میں نہ سر اونچا رکھتے اور نہ نیچا رکھتے پھر سر اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور دونو ں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ اپنے کندھوں تک اٹھاتے جیسے نماز کے شروع میں کرتے تھے ۔( دس کے دس ) صحابہ نے کہا آپ نے سچ کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے"۔
رایت ابا ھریرة فقال:لا صلین بکم صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ازید فیھا ولا انقص ' فاقسم باللہ وان کانت لھی صلاتہ حتی فارق الدنیا قال فقمت عن یمینہ لانظر کیف یصنع فابتدا فکبر ورفع یدیہ ثم رکع فکبر ورفع یدیہ ثم سجد ثم کبر ثم سجد و کبر حتی فرغ من صلاة قال:اقسم باللہ ان کانت لھی صلاة حتی فارق الدنیا ۔
(کتا ب ا لمعجم لامام ابن الاعرابی)
"حضرت ابو ھریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایامیں آپ کو ضروررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاﺅں گا اس میں نہ زیادہ کروں گا اور نہ کم ۔پس انہوں نے اللہ کی قسم اٹھا کر کہا کہ آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔راوی نے کہا میں آپ کی دائیں طرف کھڑا ہو گیا تا کہ دیکھوں کہ آپ کیا کرتے ہیں پس انہوں نے نماز کی ابتدا کی۔اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ' پھر رکوع کیا ' پس رکوع کے بعد آپ نے اللہ اکبر اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر سجدہ کیا پھر اللہ اکبر کہا اور پھر سجدہ کیا اور اللہ اکبر کہا حتی کہ آپ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے "۔
مولانا انور شاہ کاشمیری (صدر مدرس دارالعلوم دیو بند )کے خاندان کے چشم و چراغ ' معروف عالم دین سید عتیق الرحمن شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے کراچی کے دیو بندی مکتبہ فکر کے عظیم خطیب و رہنما سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رفع الیدین کی حدیث بخاری میں نہیں ۔ میں بخاری شریف لے آیا اور کھول کر سامنے رکھی کہ یہ حدیث پڑھیں تو مولانا پڑھ رہے تھے اور ساتھ ماتھا پسینے سے شرابور تھا اور حدیث پڑھنے کے بعد فرمایا کہ بخدا مجھے معلوم نہ تھا کہ بخاری شریف میں رفع الیدین کرنے کی حدیث موجود ہے۔اس واقعہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا کہ بخاری شریف کی اتنی معروف حدیث اور ایک بڑے عالم کی بے خبری ۔
ترک رفع الیدین کے دلائل
(۱) عن علقمہ قال قال عبداللہ ابن مسعود الا اصلی بکم صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرة ۔
( جامع الترمذی ۔کتاب الصلوة۔ باب رفع الیدین عند الرکوع)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
ََ"میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاﺅں پھر آپ نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہیں اٹھائے سوائے پہلی دفعہ کے "۔
مندر جہ ذیل ائمہ و محدثین کرام نے اسے ضعیف قرارد یا ہے ۔
عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے کہا
ابن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ثابت نہیں ہے ۔( سنن ترمذی۱/59)
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔ ( فتح الباری ص۰23ج۱)
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ۔(التمہید ابن عبدالبرص217ج۹)
امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔( تلخیص الجبیر ص222ج۱)
ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ روایت حقیقت میں سب سے زیادہ ضعیف ہے ۔ ( تلخیص الجبیر ص222ج۱)
ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے اس روایت کو خطاءقرار دیا ۔( نیل الاو طار ص202ج۲)
امام ابو داﺅد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ روایت ثابت نہیں ۔ ( سنن ابی داود نسخہ حمصیتہ ج1ص478'748)
یحییٰ بن آدم ' ابو بکر احمد بن عمر البزار ' محمد بن وضاح ' یحییٰ بن معین ' ابن المقلن ' امام حاکم ' امام النووی ' امام دارمی ' امام بیہقی ' محمد بن نصر المروزی ' ابن قدامہ المقدسی اور ابن عبدالبر نے ضعیف قرارد یا ہے۔
امام بخاری نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔( تلخیص الجبیر1/222)
یہ سب ائمہ حدیث ثقہ ' مستند اور غیر جانب داری و عدم تعصب میں سورج سے بھی زیادہ مشہور تھے۔ان کا اس روایت کومتفقہ طور پر ضعیف قرار دینا ہر لحاظ سے مقدم ہے ۔امام ترمذی و ابن حزم نے اس روایت کو صحیح قرارد یا ہے ۔
(۲) عن البراء بن عاذب رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا کبر لا فتتاح الصلوة رفع یدیہ حتی یکون ابھا ماہ قریبا من شحمتی اذنیہ ثم لا یعود ۔
( معانی الاثار للطحاوی ص224ج۱)
(۳) عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فتتح الصلوة رفع یدیہ حتی یحاذی بھما ' وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا ارادا ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع ' لا یر فعھما و قال بعضھم ولا یرفع بین السجدتین والمعنی واحد ۔
( مسند ابی عوانہ )
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور رکوع سے اٹھتے تو ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے اور سجدوں کے درمیان بھی نہیں اٹھاتے تھے "۔
(ترجمہ مفتی یوسف لدھیانوی حنفی)
قارئین کرام ! مفتی صاحب نے اس روایت کا ترجمہ غلط کیا ہے وجہ اس کی وہ خود جانتے ہوں گے کہ ایسا بے علمی کی وجہ سے ہوا ہے یا جان بوجھ کر یہودیوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے زبردستی غلط مطلب اخذ کرنے کی کوشش بے سود کی ۔اس حدیث کا صحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ کندھوں کے قریب کرتے اور بعضوں نے کہا اپنے دونوں کانوں تک اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے اٹھتے۔نہیں اٹھاتے ان دونوں کو بعضوں نے کہا نہ اٹھاتے دونوں سجدوں کے درمیان اور مطلب ایک ہے"۔
روایت میں یر فعھما کا تعلق رکوع کے وقت رفع الیدین سے نہیں بلکہ اس کا تعلق راویوں کے اختلاف سے ہے کہ کسی نے لا یرفعھما کہا ہے اور کسی نے لا یر فع بین السجد تین کہا ہے اور امام ابو عوانہ نے والمعنی واحد کہہ کر واضع کر دیا ہے کہ دونوں صورتوں میں دونوں سجدوں کے درمیان رفع الید ین کی نفی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الید ین کی۔
امام ابو عوانہ رحمتہ اللہ علیہ ا س حدیث کو باب رفع الید ین فی افتتاح الصلو ة قبل التکبیر بحذاءمنکبیہ وللر کو ع ولر فع راسہ من الر کوع وانہ لا یرفع بین السجدتین میں لائے ہیں یعنی اسی رویت سے امام ابو عوانہ نے رفع الیدین عند الر کوع اور بعد الرکوع کا بھی ثبوت فراہم کیا ہے یعنی یہ حدیث تو اثبات رفع الید ین کی زبر دست دلیل ہے لیکن حنفیوں کا عقل سے کتنا بیر ہے ان کے خیال میں امام ابو عوانہ با ب باندھ رہے ہیں رفع الید ین کرنے کا اور دلیل دے رہے ہیں رفع الید ین نہ کرنے کی۔ یسے تضاد کی توقع کسی محدث سے کیا کسی کند ذہن سے بھی نہیں کی جا سکتی ۔
(4)حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری قال:اخبر نی سالم بن عبداللہ عن ابیہ قال:رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا ارادا ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع ولا یرفع بین السجدتین ۔
( مسند حمیدی نسخہ ظاھریہ تاریخ نوشت 689)
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تودونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے اور اس سے سراٹھاتے اور سجدوں کے درمیان نہ اٹھاتے "۔
جب کہ حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی نے مسند الحمیدی کو نسخہ دیوبندیہ (تاریخ نوشت 1324ھ) گوجرانوالہ سے شائع کر کے مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ کا نام لکھ دیا اور رفع الیدین کی اس حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا ارادا ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفع بین السجدتین ۔
( مسند حمیدی نسخہ دیو بندیہ تاریخ نوشت1324ھ)
"ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے اور اس سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین نہ کرتے اور نہ سجدوں کے درمیان "۔
اس روایت میں فلایرفع کا اضافہ کر کے رفع الیدین کے اثبات کی روایت کو نفی میں بدل کر رکھ دیا ہے نیز سند میں سفیان کا واسطہ عجلت میں رہ گیا جس سے سند منقطع ہو کر ناقابل حجت بن گئی ۔ بعد میں سند کی تصحیح تو کر دی گئی لیکن مر جع بیان نہ کیا گیا اگر ایساہوتا تو جہاں سند کی تصحیح ہو ئی وہاں متن کی تصحیح بھی ہو جاتی ۔
مسند حمیدی کا جو نسخہ ظاہر یہ دمشق میںمکتبہ ظاہریہ میں ہے اس میں فلا یرفع کے الفاظ نہیں ہیں اور نسخہ ظاہریہ کی تصاویر مکہ مکرمہ میں بھی ہیں۔نسخہ ظاہریہ تمام نسخوں سے زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے ۔
(5) محمد بن جابر عن حماد عن ابراھیم عن علقمہ عن عبداللہ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومع ابی بکر و مع عمر رضی اللہ عنہما فلم یرفعوا ایدیھم الا عند التکبیر ة الاولی فی افتتاح الصلوة ۔
( سنن دارقطنی ص295ج ۱)
"محمد بن جابر نے اس من گھڑت سند کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نماز پڑھی وہ شروع نماز میں تکبیر تحریمہ کے سوا ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے "۔
اس روایت میں محمد بن جابر ایک راوی ہے جسے مندرجہ ذیل ائمہ و محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ احمد بن حنبل ' یحییٰ بن معین ' امام بخاری ' ابو داﺅد ' نسائی ' ابن حبان ' دارقطنی ' بیہقی ' (تہذیب التہذیب)
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:
خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ما لی ارکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنو فی الصلوة۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوة باب الامر بالسکون فی الصلوة )
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں نماز میں سکون اختیار کرو"۔
"حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس سے اگلی حدیث میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ختم نماز پر السلام علیکم کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوتی ہیں ۔ تم میں سے جب کوئی نما ز ختم کرے تو اپنے بھائی کی طرف منہ کر کے صرف زبان سے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے"۔( صحیح مسلم )
٭آج کا حنفی عالم حدیث کی صحیح و ضاحت کر سکتا ہے یا صحابی رسول ؟
٭اگر اس حدیث کے الفاظ کو متنازعہ رفع الدین پر محمول کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ رفع الیدین ایک قبیح عمل ہے چونکہ رفع الیدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے با سند صحیح تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور نبی قبیح فعل کا مرتکب نہیں ہوتا ۔تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کا رکوع والے رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ورنہ نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو قبیح تسلیم کرنا پڑے گا جس کے تصور سے ہی ہم پناہ مانگتے ہیں ۔
٭ تمام محدثین کا اس پر حقیقی اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے اور انہوں نے اس حدیث پر سلام کے ابواب باندھے ہیں ۔
(1) مسلم (2) ابو داﺅد (3) کتاب الام للشافعی (4) نسائی (5) طحاوی (6) بیہقی
٭ امام بخاری فرماتے ہیں یہ بات مشہور ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کیساتھ ہے ۔( تلخیص الجبیر ج۱ص221)
٭احناف کو سنت متواترہ رفع الیدین تو سکون کیخلاف معلوم ہوتا ہے لیکن فقہ حنفی کے مطابق نماز میں جانور کو چمکارنا ' گدھے کو ہانکنا اور پرندوں پر پتھر پھینکنا خلاف سکون نظر نہیں آتا ۔
--
Best Regards,
Syed Ibrahim Ahmed (Talha)
No comments:
Post a Comment