اول :
ہم مسلمان رمضان المبارک کےروزے اس لیے رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں روزے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
{ اے ایمان والو تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے رکھنے فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی وپرہیز گاربنو } البقرۃ ( 183 ) ۔
لھذا ہم اللہ تعالی کی اس محبوب عبادت کرکے اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں ۔
اورمؤمن کا شیوہ بھی یہی ہے کہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم پر عمل کرنے میں جلدی کرتا ہے تاکہ اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان پر عمل ہوسکے :
{ ایمان والوں کا قول تو یہ کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اوراس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وہ کہتے ہيں کہ تم نے سنا اورمان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہيں } النور ( 51 ) ۔
اوراللہ تعالی کا ایک دوسرے مقام پرفرمان ہے :
{ اوردیکھو کسی مؤمن مرد وعورت کو اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئي اختیار نہیں رہ جاتا ، یاد رکھوجو بھی اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا وہ صریحا گمراہ ہوگيا } الاحزاب ( 36 ) ۔
دوم :
یہ اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے کئي قسم کی عبادات کا مکلف کیا تا کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے کہ وہ ان عبادات میں کس حد تک اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں ، کیا وہ اپنے طبعیت کے موافق معاملات میں اللہ تعالی کی بات تسلیم کرتے ہیں یا پھر وہ اللہ تعالی کی رضامندی کو مدنظر رکھتے ہوئے طبیعت کے مخالف معاملات میں بھی اطاعت کرتے ہيں کہ نہيں ؟
جب ہم مندرجہ ذیل پانچ عبادات پر غوروفکر کریں :
اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان ، نماز اورزکاۃ کی ادائيگي ، اورحج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا ۔
توہم ان مندرجہ بالا عبادات کو دیکھتے ہیں توکچھ بدنی عبادات ہيں اورکچھ مالی ، اوربعض بدنی اورمالی دونوں کو شامل ہيں ، حتی کہ سخی اوربخیل کا پتہ چل جاتا ہے ، بعض لوگوں پرنمازکی ادائيگي آسان ہوتی اوراسے ہزار رکعت کرنا بھی مشکل نہيں ہوتیں ، لیکن وہ ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرسکتا ۔
اورکچھ لوگ آسانی سے ہزاروں روپے خرچ تو کرسکتے ہيں لیکن وہ ایک رکعت کی ادائيگي نہیں کرسکتے ۔
اس لیے شریعت اسلامیہ نے مختلف قسم کی عبادات فرض کیں تا کہ یہ علم ہوسکے کہ کون اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے ، اوراپنی خواہشات کے پيچھے چلنے والا کون ہے ؟ ۔
مثلا نماز صرف بدنی عبادت ہے لیکن اس کے لیے وضوء کے لیے پانی خریدنا اورستر عورۃ کےلیے کپڑے خریدنا نماز کے تابع ہے نہ کہ نمازمیں شامل ہے ۔
اورزکاۃ صرف مالی عبادت ہے ، اوراس میں جوتھوڑا بہت بدن کا حصہ شامل ہے کہ مال کا حساب کتاب کرنا ، اورزکاۃ فقراء مساکین تک پہنچانا یہ سب کچھ زکاۃ کے تابع ہے نہ کہ عبادت میں داخل ہيں ۔
اوراسی طرح حج کودیکھیں اس میں مالی اوربدنی دونوں عبادت کو جمع کردیا گيا ہے ، لیکن ہوسکتا ہے اہل مکہ اس عبادت میں اتنے مال کےمحتاج نہ ہوں جتنا کہ دوسرے لوگ محتاج ہوتے ہیں ، لیکن یہ بھی بہت ہی نادر ہے یا پھر انہیں کم مال خرچ کرنا پڑتاہے ۔
اورجھاد فی سبیل اللہ ایک عبادت ہے جس میں مالی اور بدنی دونوں عبادتیں ہی شامل ہیں ، بعض اوقات مال اوربعض اوقات بدن کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
اوراسی طرح تکلیف یعنی کسی شخص کا مکلف ہونےمیں بھی انواع واقسام ہیں ، کبھی توپسندیدہ اشیاء سے رکنا پڑتا ہے اوربعض اوقات پسندیدہ اورمحبوب اشیاء کواللہ تعالی کے راستےمیں خرچ کرنا پڑتا ہے جوکہ تکلیف کی ایک قسم ہے ۔
محبوب اورپسندیدہ اشیاء سے رکنے کی مثال روزے ہیں اورمحبوب اشیاء خرچ کرنے کی مثال زکاۃ کی ادائيگي ہے اس لیے مال بہت ہی زيادہ ومحبوب ہوتا ہے ، لھذا مال تواس وقت تک خرچ ہیں نہیں کیا جاتا جب کوئي اس سے بھی زيادہ محبوب چيز نظر آرہی ہو پھر مال جیسی محبوب چيز بھی خرچ کی جاسکتی ہے ۔
اوراسی طرح محبوب اشياء سے بھی رکنا : ہوسکتا کسی کے لیے ہزار روپے خرچ کرنے تو آسان ہوں لیکن ایک دن کا روزہ رکھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے یا پھر اس کے برعکس روزہ تو رکھ سکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ ا ھـ
دیکھیں شرح الممتع ( 6 / 190 ) ۔
سوم :
روزوں کی مشروعیت میں بہت ہی عظيم اوربڑی حکمتیں پائي جاتی ہیں جن کا ذکر سوال نمبر ( 26862 ) کے جواب میں گزرچکا ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے روزوں کےوجوب کی حکمت کے بارہ میں سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :
جب اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان پڑھتے ہیں :
{ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گـئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو } البقرۃ ( 183 ) ۔
تواس آیت سے ہمیں روزوں کی فرضيت کی حکمت کا علم ہوتا ہے کہ یہ حکمت اللہ تعالی کی عبادت اورتقوی ہے ۔
تقوی محرمات کو ترک کرنے کا نام ہے ، اورتقوی کااطلاق محظورات کو ترک کرنے اور مامور اشیاء پر عمل کرنےپر ہوتا ہے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوکوئي بے ہودہ باتوں اوران پر عمل اورجہالت سے باز نہیں آتا تواللہ تعالی کو اس کےبھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئي ضرورت نہيں ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 657 ) ۔
مزيد تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 37658 ) اور ( 37989 ) کے جوابات کا مطالعہ ضرور کریں ۔
تواس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ روزہ دارکو واجبات کی ادائيگي کرنا چاہیے اوراسی طرح حرام کردہ اشیاء سے اجتناب چاہے وہ قولی ہوں یا فعلی حرام ہوں ان سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
روزہ دار نہ تو لوگوں کی غیبت و چغلی کرے ، اورنہ ہی جھوٹ بولے گا اورنہ ہی ان کے مابین غلط باتیں پھیلاتا رہے ، اوراسی طرح وہ کوئي حرام خریدوفروخت بھی نہيں کرے گا بلکہ سب محرمات سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
لھذا اگرکوئي مسلمان پورا ایک ماہ اس پر عمل پیرا ہوتو پھر باقی پورا سال بھی صحیح اورٹھیک اعمال کرے گا ، لیکن افسوس تواس بات کا ہے کہ بہت سے روزہ دار اپنے عام دنوں اوررمضان میں روزہ رکھے ہوئے دن کے مابین کوئي فرق نہيں کرتے ، بلکہ ان کی وہی عادت رہتی ہے جوپہلے تھی اوروہ اسی طرح حرام کاموں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اورواجب اورفرض کردہ اشیاء پر عمل بھی نہيں کرتے ۔
آپ کو یہ محسوس بھی نہیں گا کہ وہ شخص روزہ دار ہے اورآپ اس پر روزہ کے وقار کو بھی نہيں دیکھیں گے ، لیکن یہ ہے کہ ان افعال سے روزہ تونہيں ٹوٹتا بلکہ اس کے اجرو ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے ، اورجب اس کا موازنہ کیا جائے تو ہوسکتا ہے یہ سب کچھ روزہ کے اجر سے زيادہ ہوکر اس کے اجروثواب کو ہی ضائع کردے ۔ ا ھـ
دیکھیں فتاوی ارکان الاسلام صفحہ ( 451 ) ۔
واللہ اعلم .
--
~*Syed Ibrahim (Talha)~*
No comments:
Post a Comment