الحمد للہ:
تارك نماز كا كوئى عمل قبول نہيں ہوتا، نہ تو اس كى زكاۃ، اور نہ ہى روزے اور حج اور نہ ہى كوئى چيز.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى نماز عصر ترك كى اس كے عمل ضائع ہو گئے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 520 ).
اور " اس كے عمل ضائع ہو گئے " كا مطلب يہ ہے كہ اس كے عمل باطل ہو گئے اور اسے ان كا كوئى فائدہ نہيں، چنانچہ يہ حديث اس كى دليل ہے كہ تارك نماز كا كوئى عمل بھى اللہ تعالى قبول نہيں كرتا، چنانچہ بے نماز كو اس كے كسى عمل كا كوئى فائدہ نہيں ہوتا، اور نہ ہى اس كا عمل اللہ تعالى كى طرف اوپر جاتا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى اس حديث كے معنى ميں كہتے ہيں:
حديث سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ يہ كہ: ترك كى دو قسميں ہيں:
كلى طور پر ترك كرنا كہ وہ كبھى بھى نماز ادا نہ كرے، تو اس شخص كے سب اعمال حبط اور ضائع ہيں.
اور كسى معين يوم ميں كوئى ايك آدھ نماز ترك كرنا، تو اس شخص كے اس روز كے عمل ضائع ہونگے.
چنانچہ عموم طور پر نماز ترك كرنے ميں اعمال بھى عمومى طور پر ضائع ہونگے، اور معين طور پر ترك كرنے ميں اعمال بھى معين ضائع ہونگے" اھـ
ديكھيں: كتاب الصلاۃ لابن قيم صفحہ نمبر ( 65 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
تارك نماز كے روزے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
تارك نماز كا روزہ صحيح نہيں، اور نہ ہى اس كا روزہ قبول ہوتا ہے؛ كيونكہ تارك نماز كافر اور مرتد ہے.
كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
﴿ چنانچہ اگر وہ توبہ كرليں، اور نماز قائم كرنے لگيں اور زكاۃ ادا كريں تو وہ تمہارے دينى بھائى ہيں ﴾التوبۃ ( 11 ).
اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور اس ليے كہ صحابہ كرام ميں سے عمومى صحابہ كرام كا قول يہى ہے چاہے ان كا اجماع نہيں.
مشہور تابعى عبد اللہ بن شقيق رحمہ اللہ كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نماز ترك كرنے كے علاوہ كوئى اور عمل ترك كرنا كفر نہيں سمجھتے تھے.
اس بنا پر اگر كوئى شخص روزہ تو ركھے ليكن نماز ادا نہ كرے تو اس كا روزہ مردود ہے اور قبول نہيں ہو گا، اور نہ ہى روز قيامت اللہ تعالى كے ہاں اسے كوئى فائدہ دے گا.
اور ہم يہ كہينگے: نماز ادا كرو اور روزہ ركھو، ليكن يہ كہ آپ روزہ ركھيں اور نماز ادا نہ كريں، تو آپ كا روزہ آپ كے مونہہ پر مار ديا جائيگا، يہ مردود ہے، كيونكہ كافر كى عبادت قبول نہيں ہوتى. اھـ
ديكھيں: فتاوى الصيام لابن عثيمين صفحہ نمبر ( 87 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر انسان رمضان كے روزے ركھنے اور صرف رمضان ميں نماز ادا كرنے پر حريص ہو ، ليكن جيسے ہى رمضان گزرے تو وہ نماز بھى ترك كردے، تو كيا اس كے رمضان كے روزے قبول ہونگے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" نماز اركان اسلام ميں سے ايك ركن ہے، اور كلمہ كے بعد يہ اہم ترين ركن ہے، اور فرض عين ميں شامل ہوتا ہے، جس نے بھى نماز كى فرضيت كا انكار كرتے ہوئے نماز ترك كى، يا پھر اسے حقير كرتے ہوئے اس ميں سستى كى تو اس نے كفر كيا.
اور وہ لوگ جو صرف رمضان المبارك ميں روزے ركھتے اور نمازيں ادا كرتے ہيں، يہ اللہ تعالى كو دھوكہ دينا ہے، وہ لوگ بہت ہى برے ہيں جو صرف رمضان المبارك ميں ہى اللہ تعالى كو پہچانيں، چنانچہ رمضان گزرتے ہى نماز ترك كرنے والوں كے روزے صحيح نہيں.
بلكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق وہ اس طرح كفر اكبر كے مرتكب ٹھرتے ہيں، چاہے وہ نماز كى فرضيت كا انكار نہ بھى كرتے ہوں. اھـ
واللہ اعلم .
--
~*Syed Ibrahim (Talha)~*
No comments:
Post a Comment