بسم الله الرحمن الرحيم
محمد اشفاق حسین حیدرآباد –ترجمان صفر-1431ھ
اسلام کا ایک اہم تصور: اسلام ایک فطری مذہب ہے- اسکا کوئی جزبھی کسی انسان کے دماغ کی پیداوارنہیں- دین حق وحى الہى کے ذریعہ معقول اورماثورہے- اسلام میں کسی کے علم اورعقل کا دخل تو نہیں ہے- لیکن وہ انسانی دل ودماغ سے عین مطابقت رکھتا ہے- اسلام کا مقصد اورمطالبہ صرف یہی نہیں ہے کہ اس کے احکامات پرعمل کیا جائے اورممنوعات اور محرمات کوچھوڑدیا جائے بلکہ بعض مخصوص موقعوں پرکچھ نہ کرنا اورخاموش رہنا یعنى ترک عمل بھی ایک عمل ہے جسکا تعلق اتباع سنت سے ہے – یعنى ہم کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جس پرحضوراکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے عمل نہ فرمایا تھا اورنہ اسکا حکم دیا تھا- اسلئے جلیل القدرصحابہ کرام یہ کہا کرتے تھے کہ مسلمان وہ کام انجام نہ دیں جودورصحابہ میں موجود نہ تھا جوکام صحابہ کرام کے زمانے میں دین نہ تھا وہ بعد کے زمانے میں بھی دین نہیں ہوسکتا – رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اسلام کے بارے میں کوئی بات وحى کے بغیراپنی طرف سے نہیں فرماتے تھے – ارشاد الہی ہے:" اور ہم نے جوبھی رسول بھیجے اسی لئے کہ اللہ کے اذن سے اسکی اطاعت کی جائے"-(نساء:64)
حنفى فقہ کی معروف کتابوں ہدایہ اورکنزالدقائق وغیرہ میں ہے کہ جس کام کا کرنا رسول صلى اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہو-اس کام کا کرنا منع ہے اسی طرح طرح جلیل القدرعلماء سلف یہ بھی فرماتے ہیں کہ جسطرح حضورصلى اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے عمل کا انجام دینا سنت ہے –اسی طرح آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے نہ کئے ہوئے کام کا نہ کرنا بھی سنت ہے اوراہل سنت کہلانے کا مطلب بھی یہی ہے ورنہ اہل بدعت کہلائیں گے- فقہ کامعروف اورمسلمہ
مسئلہ ایک یہ بھی ہے کہ جن امورکی انفرادی طورپراجازت ہے- انہیں زماں ومکاں کی قید اور شرط کے ساتھ اجتماعى طورپرانجام دینے کیلئے دلیل شرعى درکارہے – ہم اپنے طورپرکوئی انفرادی عبادت ,اجتماعى طورپرانجام نہیں دے سکتے- اسکے لئے حکم اوردورصحابہ کی عملى دلیل اورنظیردرکارہے- مثلا مصافحہ سنت ہے ,لیکن نمازفجرکے بعد نمازیوں کا اجتماعى طورپرایک دوسرے سے مصافحہ کرنا سنت سےثابت نہیں ہے- اسلئے فقہاء نے اس سے منع فرمایا ہے- اسی طرح فقہ کی معتبرکتاب "اصول سرخسی" میں ہے کہ احکام شرعى میں دلیل مثبت عمل کرنے والے کے ذمہ ہے, نہ کہ مانع پر, جو دعوى کرنے والا ہوگا- دلیل بھی اس کےذمہ ہوگی-
سدباب ذریعہ: سب جانتے ہیں کہ اسلام میں شرک سب سے بڑی اورناقابل بخشش گمراہی ہے – اسلئے اسلام نے مسلمانوں کو شرک سے بچانے اس طرف لے جانے والے تمام راستوں اوردروازوں کوبند کردیا ہے- شرک کا قدیم اوراہم ذریعہ اللہ کے نیک اورمقرب بندوں کی عقیدت,محبت ,احترام اورتعظیم میں شرعى حدود سے تجاوزکرنا ہے- اسلام نے مسلمانوں کوشرک سے بچانے کیلئے جس طرح عقیدت میں غلو, پختہ قبوراورانکی زیارت کیلئے خصوصی سفرسے منع کیا ہے – اسی طرح پیدائش اوروفات کے دنوں میں اجتماعى, جشن عید , اورڈے منانے سے بھی روک دیا ہے –یہ کام مسلمانوں کیلئے عملاً ممکن بھی نہیں ہے- ورنہ ساری زندگی خوشی اورغم منانے میں گزرجائے گی- اسلئے کہ پیداہونے اوروفات پانے والے انبیاء اوربزرگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے- جب ڈے منانا بالفرض جائزاورمفید کام ہے توایسی صورت میں تمام انبیاء ,شہداء, صحابہ اوربزرگوں ,ائمہ فقہ اورحدیث کا ڈے منانا,عرس کرنا لازم ہوجاتا ہے- جب رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منایا جائے گا توتمام انسانوں کے باپ حضرت آدم اورابوالانبیاء
حضرت ابراہیم کوکیسے فراموش کیا جاسکتا ہے؟ جب شیخ عبدالقادرجیلانی کا عرس منایا جاتا ہے توآپ سے لاکھوں درجہ افضل اوربرترخلفائے راشدین,عشرہ مبشرہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام بخاری رحمہما اللہ کوکیوں نہیں؟ جب کہ دین ہمیں شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ سے نہیں بلکہ ائمہ حدیث وفقہ کے واسطے سے ملا ہے –اسلام احادیث کے بغیرمکمل نہیں ہوتا- لیکن اہل بدعت کی یہ نامعقولیت ,فکروعمل کا عدم توازن اورافراط وتفریط ملاحظہ ہوکہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ ائمہ حدیث اورفقہ میں کسی کی نیاز, فاتحہ اورعرس وغیرہ نہیں مناتے!"
فیضان غوث اعظم ", کے جلسےتو بے شمارہوتے ہیں لیکن فیضان امام بخاری رحمہ اللہ کا جلسہ ایک بھی نہیں کیا جاتا اورنہ قوالیوں میں ائمہ حدیث وفقہ کا نام لیا جاتا ہے!-
سال بہ سال انبیاء اوربزرگوں کی پیدائش پرخوشی اورموت پرغم منانا ایک فطری اورناممکن العمل بات ہے- ہاں البتہ انبیاء اوربزرگوں کی تعلیمات ,ہدایات اورنقش قدم پرچلنا ہرمسلمان کیلئے ممکن بھی ہے اورمفید بھی – قرآن وحدیث میں انبیاء اوربزرگوں کی اتباع اورپیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ انکا ڈے منانے کا حضرت عیسى علیہ السلام کی ولادت کا ذکرقرآن میں مفصل مذکورہے- حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا قصہ قرآن مجید میں جابجا ملتا ہے- اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش کا ذکربھی موجود ہے باوجودیکہ یہ ولادتیں شاندارولادتیں ہیں اوراعجازی صورتوں اورعجائبات الہى کا مظہربھی ہیں- مگرپھربھی حضرت محمد صلى اللہ علیہ وسلم نے کسی گزشتہ نبی کے تذکرہ میلاد کیلئے کسی خاص تاریخ میں کوئی اس قسم کی محفل ہزگزمقررنہیں فرمائی- نہ جشن منایا اورنہ جلوس نکالا- نہ ہی قوالیاں کرائیں, نہ چراغاں کیا , نہ جھنڈیاں لگائیں, نہ محراب بنوائے
نہ لنگرشریف " پکائے, نہ کھانے کھائے اورنہ کھلائے پھروہ معاملہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے کسی گزشتہ نبی سے اسکی شان کے خلاف سمجھکراپنی تمام عمرمیں کیا ہو- وہ معاملہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی شان کے کیونکرمناسب ہوسکتا ہے؟ نہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے سابق انبیاء کا یوم منایا اورنہ ہی خلفاء راشدین اورصحابہ کرام نے حضورصلى اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا جشن منایا – اس حقیقت کووہ بریلوی علماء بھی تسلیم کرتے ہیں جوجشن یا میلادالنبی صلى اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں انکے بیانات آگے آرہے ہیں-
امام ابوعبداللہ ابن الحاج مالکی فرماتے ہیں: "ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کوجومحفل میلاد قائم ہوتی ہے – باوجودیکہ اسکے کہ یہ بدعت خود بذات خود صریح بدعت ہے – مگراسمیں بھی لوگوں نے خرافات اورمحرمات کا اضافہ کررکھا ہے"- (المدخل) یہ 737ھ کی بات ہے موجودہ زمانے میں ان منکرات میں انتہائی اضافہ ہوچکا ہے- اورحالت بدسے بدترہوتی جارہی ہے- علامہ محمدبن ابی بکررحمہ اللہ فرماتے ہیں :" ہمارے زمانے میں بعض لالچی اوردنیا دارمولوی میلاد کے نام سے ایک محفل قائم کرتے ہیں – یہ تباہ کن بدعت ہے – مگرگزشتہ امتوں کی تباہی کا سب سے بڑاسبب ایسی ہی بدعتیں ہیں- اوریہ امت بھی بدعت میں تباہ ہوگئی- (البدع والحوادث)
اوراب ایسا ہوچکا ہے –دنیا جانتی ہے کہ عیسائی کرسمس کے دن کیا کرتے ہیں وہ حضرت عیسى علیہ السلام کی یوم ولادت میں خوب پیتے,عیش کرتے ہیں اورنشے میں ڈرائیوننگ کرنے سے سینکڑوں انسانوں کی جان جاتی ہے- مصرکے بعض مسلمانوں نے تو عیدمیلاد کے موقع پرشراب پینا شروع کردیا ہے – ہندوپاک اوربنگلہ دیش میں پچاس سال پہلے ماہ ربیع الاول میں سیرت النبی صلى اللہ علیہ وسلم کے سادہ طورپرجلسہ اوربارہویں کی فاتحہ ونیازہوتی تھی- لیکن یہ ترقی کرتے کرتے بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ باجوں اورناچوں کے ساتھ جلوس اورمیلاد نکالے جاتے ہیں – کثرت سے روشنی کی جاتی ہے ,پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں اورتقریبا ہرکھلی جگہ کثیرتعداد میں پکوان ہوتا ہے- ہرطرف دوردورتک قوالیاں کی ریکارڈنگ کی دھوم اورزبردست صوتی آلود گی ہوتی ہے – جبکہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد بخاری کی حدیث کے مطابق آلات موسیقی کوختم کرنا تھا- لیکن یہ نام نہاد عاشقان رسول صلى اللہ علیہ وسلم مساجد میں کم ہی نظرآتے ہیں-
علامہ ابوالحسن على بن فضل کہتے ہیں:" محفل میلاد کا احداث تو قرون ثلاثہ کے بعد ہواہے –سلف صالحین سے اسکا جواز ہرگزثابت نہیں- پس ہم پرسلف صالحین کی اقتدا لازم ہے –احداث وبدعت کی کچھ ضرورت نہیں-(جامع المسائل)
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" سماع کے منع ہونے کا معاملہ میلاد کے منع ہونے سے بھی مراد ہےاگربالفرض رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم اسوقت دنیا میں زندہ ہوتے اوریہ مجلس واجتماع آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں منعقد ہوتی توآیا رسول صلى اللہ علیہ وسلم اس امرسے راضی ہوتے اوراس اجتماع کوپسند کرتے ؟ فقیرکا یقین ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہرگزاس عمل کو پسند نہ فرماتے بلکہ انکارکرتے-" (مکتوبات : 273)
واضح رہے کہ حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات کے مطابق بدعت کی تقسیم حسنہ اورسیئہ کے قائل نہ تھے – اور ہربدعت کو اگرچہ کہ وہ بظاہراچھی ہو-گمراہی سمجھتے تھے جس میں جشن عیدمیلاد بھی بدرجہ اولى طورپرشامل ہے علماء کی یہ تحقیق ہے کہ عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم منانے کا آغاز 604ھ میں ہوا –اس سے پہلے دورنبوی صلى اللہ علیہ وسلم دورصحابہ رضی اللہ عنہم اوردورتابعین رضی اللہ عنہم میں یہ عید نہیں منائی جاتی تھی-
عید میلادالنبی صلى اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ایجاد: " علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سیرت میں اورامام ابوشامہ رحمۃ اللہ نے اپنے رسالہ" الباعث على انکارالبدع والحوادث " میں فرماتے ہیں : " سب سے پہلے ملا عمربن محمد نے شروع کیا – وہ موصل کا ایک بہت مشہورصوفی تھا – مگراسکی ترویج اربل کے ایک بادشاہ ابوسعید کوکری کے ذریعہ ہوئی جوعراق کے شہراربل کا ایک عیاش اورفضول خرچ بادشاہ تھا-" امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اس بدعت کوسب سے پہلے اربل کے بادشاہ ابوسعید مظفرالدین کوکری نے ایجاد کیا ہے –" (حسن المقصد فی عمل أطولہ) امام احمد بن محمدبن محمد مالکی رحمۃ اللہ علیہ علامہ معزالدین حسن خوارزمی رحمہ اللہ : کی تاریخ سے نقل کرتے ہیں "یہ محفل مولد اربل کے ایک فاسق وفاجربادشاہ ابوسعیدمظفرالدین کی پیدائش پرایجاد کی گئی تھی "-
علامہ ابن خلقان رحمہ اللہ نے بھی اس بادشاہ اوراسکی ایجادکردہ عیدمیلاد کی مذمت کی ہے "-
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اس بادشاہ اوراسکی ایجاد کردہ بدعت کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے:" وہ خود بھی دیگرشاعروں کے ہمراہ ظہرسے فجرتک محفل سماع میں حصہ لیا کرتا اوررقص کرتا تھا"- (مرآۃ الزماں)
علامہ ناصرفاکہانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :"اربل کا بادشاہ ابوسعید مظفرالدین کوکری گانے بجانے والوں کوعیدمیلاد میں جمع کرتا تھا اورراگ ومزامیرسن کرخودبھی رقص کرتا تھا "- (ردعمل المولد بحوالہ فتاوی رشیدیہ ص:132)
میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :" اربل کا بادشاہ ائمہ دین اورعلماء سلف کی شان میں بہت گستاخی کرتا تھا – گندی زبان والا بے وقوف اورمتکبرتھا"- (لسان المیزان ج:4)
عید میلاد النبی نبی صلى اللہ علیہ وسلم بدعت ہے -قائلین کا اعتراف:" روزنامہ "آواز" لندن میں مولانا محمد ظفرمحمود فراشوی مجددی بریلوی اوربرمنگھم کے صاحبزادہ فیاض الحسن قادری بریلوی کا عید میلادالنبی صلى اللہ علیہ وسلم کی شرعى حیثیت کے بارے میں طویل مضمون شائع ہوا- جسمیں وہ کہتے ہیں کہ محفل میلاد کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ کتاب وسنت میں اسکی ممانعت نہیں اورمنکرین کوممانعت کی دلیل پیش کرنی چاہئے-" (آوازلندن 6/ستمبر1933)
یہ مطالبہ غلط اورالٹا ہے, عامل اوردعویدارپرہی دلیل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے-
جبکہ فقہاء کے نزدیک عمل ہی نہیں بلکہ ترک عمل ہی سنت ہے اگرمسلمان مغرب کی تین کے بجائے چاررکعت نمازپڑھے اورمخالفین سے کہے کہ تمہارے پاس ایک زائد رکعت کی ممانعت کی دلیل کیا ہے؟ تواسکا اہل بدعت کے پاس جوجواب ہوگا وہی جواب عیدمیلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کا ہوگا- مولانا عبدالسمیع رامپوری خلیلفہ مولانا احمد رضا قادری بریلوی لکھتے ہیں:" یہ سامان فرحت وسرور اوروہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اوراسمیں خاص وہی بارہواں دن – میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوا یعنی چھٹی صدی ہجری کے آخرمیں-" (انوارساطعہ ص:159)
جلیل القدرعلماء قدیم کے علاوہ مذکورہ بیانوں میں دوبریلوی علماء کے بیانات بھی شامل ہیں- جن میں انہوں نے اس حقیقت کا اعلان اوراعتراف کیا ہے کہ عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم دورنبوی صلى اللہ علیہ وسلم اوردورصحابہ میں نہیں منائی جاتی تھی – یہ عید بدعت یعنی بعد کے زمانے کی پیداوار ہے- اگرعید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم منانا کوئی جائز اوراچھی چیزہوتی تو صحابہ کرام جو بریلیوں سے بہت زیادہ عاشق رسول تھے- اس نیک کام کو ترک نہ کرتے بلکہ عید میلاد بڑے اہتمام سے مناتے -!
وفات کے دن خوشی: رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت اورتاریخ وفات میں شروع سے ہی اختلاف پایاجاتا ہے- علماء اورمورخین کے ایک بڑے طبقے کے نزدیک تاریخ ولادت 9 ربیع الاول اورتاریخ وفات 12 ربیع الاول ہے-جبکہ دوسرا طبقہ تاریخ ولادت اورتاریخ وفات 12 ربیع الاول کا قائل ہے- میلاد اوروفات کی تاریخوں کے متحد ہونے کی وجہ سے نہ بارہ وفات کا غم اورنہ عید میلاد کی خوشی ہے- اس موقع پر نیت کی آڑنہیں لی جا سکتی – نیت کے سبب تاریخ وفات نہیں بدل جاتی-اسکے باوجود وہ تاریخ اوراس سے وابستہ غم وحزن باقی رہے گا- 12 ربیع الاول کوجب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی تودیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اس دن صحابہ کرام کا کیا حال تھا؟ حضرت عمررضی اللہ عنہ تو مارے غم کے ہوش کھو بیٹھے تھے- کیا اس دن کسی صحابی نے میلاد النبی کی خوشی منائی تھی ؟ پھرہم اس دن جشن یا عید کس طرح منا سکتے ہیں- جبکہ اس دن رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی!-
پیرکی روزہ کی دلیل کا جائزہ: رسول صلى اللہ علیہ وسلم پیرکے دن روزہ رکھا کرتے تھے- کسی صحابی نے حضورصلى اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا :" وہ دن میری پیدائش کا دن – اوراسی دن مجھ پرقرآن نازل ہوا-"(مسلم)-
دلیل اور اتباع رسول کے باب میں عملى سنت کے مقابل میں قولى یا حکمی سنت زیادہ اہمیت رکھتی اوراتباع رسول کےباب میں عملی سنت کے مقابل میں قولى یا حکمی سنت زیادہ اہمیت رکھتی اوراتباع کے لئے لازمی سمجھی جاتی ہے- جبکہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے بعض اعمال آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی حد تک مخصوص اورمحدود تھے اس عملى سنت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس روزہ کا علم صحابہ کرام کوحضورکے ازخود بتلانے سے نہیں ہوا بلکہ کسی صحابی نے اسکے بارے میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا- تواس پیرکے روزہ کی بات سامنے آئی- اس روزہ کا حکم صحابہ کرام کورسول صلى اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا- اسلئے صحابہ کرام حضورصلى اللہ علیہ وسلم کی اتباع یا آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی میں پیرکا روزہ نہیں رکھتے تھے-
جب پیرکے روزہ کی سنت جاری اورعام نہ تھی توعید میلاد میں مسلمان جوخود ساختہ رسوم انجام دیتے ہیں –ان کا جواز کہاں سے لایا جائے گا؟ خاموشی سے روزہ رکھنے اورمروجہ رسومات کے ساتھ دھوم مچانے میں زمین وآسمان کا عظیم فرق پایا جاتا ہے- پیرکے روزہ کی سنت سے زیادہ جوبات بنتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم چونکہ روزہ رکھتے تھے-ہم بھی حضورکی اتباع اورپیدائش کی خوشی میں روزہ رکھ سکتے ہیں- اورچونکہ میلاد کے دن مسلمان جوکچھ کرتے ہیں وہ سنت رسول صلى اللہ علیہ وسلم اوراسوہ صحابہ سے ثابت نہیں اسلئے اس دن جلسے کرنا ,جلوس نکالنا,نعرے لگانا ,روشنی کرنا ,پٹاخے چھوڑنا ,نیازوفاتحہ کرنا ,بریانی کھانا اور رقص کرنا اورقوالی کی محفلیں جمانا- یہ تمام خرافات سے پرہیزکرنا ضروری ہوجاتا ہے- ورنہ یہ عشق رسول شتم رسول میں بدل جائے گا-
جوچیزحدیث سے ثابت ہے – مسلمان اس پرعمل نہیں کررہے ہیں- میں نے آج تک کسی بدعتى کواس نیت سے کہ حضورپیرکے دن پیداہوئے تھے- روزہ رکھتے نہ دیکھا نہ سنا اوروہ 12 ربیع الاول کوروزہ رکھنے
کے بجائے جودھوم دھام اورہڑبونگ مچاتے ہیں وہ ثابت نہیں ہے- اسلام ایک سنجیدہ دین ہے – رسول صلى اللہ علیہ وسلم کاخوشی کے ایک اور موقع پرروزہ رکھنا ثابت ہے – بخاری کی ایک حدیث کے مطابق رسول صلى اللہ علیہ وسلم عاشورہ کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اسلئے کہ اس وقت حضرت موسى علیہ السلام نے فرعون کے مظالم سے نجات پائی تھی- رمضان کے روزوں کا تعلق بھی نزول قرآن کی خوشی اورشکرانہ سے ہے- اسلئے کہ قرآن کا نزول رمضان میں ہواتھا- اسلام میں عیدین ہیں ان خوشی کے دنوں میں اولیت اوراہمیت نمازکوحاصل ہے – لیکن موجودہ زمانے کے عید میلاد منانے والے عاشقان رسول صلى اللہ علیہ وسلم نہ اس دن نماز کا اہتمام کرتے ہیں اورنہ روزہ کا بلکہ عید میلاد میں وہ کام کرتے ہیں جن سے حضورصلى اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا- رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے امت کوجودیا وہ قرآن ہے ناکہ گانا اورموسیقی جوقوالی کے اجزاء ہیں- قوالى کی پرشورریکارڈنگ اوراس صوتی آلودگی سے لوگوں کوتکلیف دی جاتی ہے اورنقصان پہنچایا جاتا ہے – جبکہ مسجد میں ذکرجہری اوربلند آواز سے قرآن کی تلاوت منع ہے-
رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لاتجعلوا قبرى عیدا)"میری قبر کو عید نہ بنانا" ایسی صورت میں ہم نہ قبرکے پاس عید مناسکتے ہیں اورنہ قبرسے دورمناکراس کے ڈانڈے میلادالنبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ملاسکتے ہیں – صحابہ کرام کواسکا حق سب سے زیادہ اورسب سے پہلے حاصل تھا – چونکہ صحابہ کرام نے جشن یا عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم نہیں منائی – اسلئے ہم بھی ان کی اتباع میں عید میلاد نہیں مناسکتے-
بریلوی مسلمات کے خلاف دلیل: عید میلاد کے جواز اورحمایت میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ دیکھئے عشق رسول صلى اللہ علیہ وسلم لازمی ہے, ایصال ثواب جائز ہے, کھانا کھلانے کے اجروثواب کا کوئی منکر نہیں اورمیلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ واقعات کا تذکرہ بھی ناجائزنہیں جب یہ سب چیزیں فردافردا اپنی جگہ پرجائز اورمفید ہیں توعید میلاد منانے کے سلسلے میں انکا مجموعہ ناجائزکسطرح ہوسکتا ہے ؟ اسکا جواب خود اہل بدعت کی فکروعمل اورمسلمات میں موجود ہے- مثلا اذان کی ضرورت اورفضیلت کا بھلا کون منکرہوسکتا ہے؟ لیکن اسکے باوجود عیدین میں اذان نہیں کہی جاتی- اسکا سبب کوئی مانع حدیث نہیں ہے- بلکہ یہ دور نبوی صلى اللہ علیہ وسلم میں عیدین کی نمازوں میں اذان کا نہ ہونا اسکے سنت نہ ہونے اوراذان نہ کہنے کی دلیل ہے-سورہ فاتحہ اوربسم اللہ کی فضیلت کے کیا کہنے- لیکن اہل بدعت امام کے پیچھے ان سورتوں کی تلاوت نہیں کرتے- اسکی وجہ اوردلیل بتلائی جاتی ہے- وہی دلیل عیدمیلاد النبی نہ منانے کی بھی ہے- ہم بدعت حسنہ کے طورپرنہ عیدین میں اذان کہ سکتے ہیں – نہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت کرسکتے ہیں- اورنہ مغرب کی تین کے بجائے چاررکعتیں اداکرسکتے ہیں – اسی طرح چونکہ صحابہ کرام نے جشن میلاد نہیں منایا تھا – اسلئے صحابہ کرام کی اتباع میں ہمارے لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم بھی عید میلاد نہ منائیں- ورنہ ہم عشق رسول کے معاملے میں صحابہ کرام سے آگے بڑھ جائیں گے جوکہ ایک ناممکن بات ہے!
نعمت رسالت صلى اللہ علیہ وسلم اورخوشی: عیدمیلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کے جواز میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی ولادت اوربعثت مسلمانوں کے حق میں ایک بہت بڑی نعمت ہے- جسکے شکرانہ اورخوشی میں ہمیں اس دن جشن منانا چاہئے-
جس بات کا علم اوراحساس اہل بدعت اوربریلوی علماء کوہوا ہے صحابہ کرام نعوذباللہ اتنے ناشکرے ,غبی اورکند ذہن نہ تھے کہ وہ اس نکتہ کوپا نہ سکیں یقیناً صحابہ کرام کواس نعمت عظمہ کا احساس اورشعور ہم سے پہلے بدرجہ اولى تھا- لیکن اسکے باوجود انہوں نے جشن نہیں منایا- جب کہ وہ بڑی دھوم دھام اور اہتمام کے ساتھ جشن مناسکتے اوراونٹوں کا جلوس نکال سکتے تھے-
اس سلسلہ کی ایک اوراہم بات یہ ہے کہ کوئی پچاس سال سے مسلمان عید یا جشن میلاد النبی مناتے آرہے ہیں جو ربیع الاول کے پورے مہینے میں جاری رہتا ہے- آج سے سو سال بعد جب کوئی مورخ ان جشنوں کوضبط تحریرمیں لائے گا تووہ متعلقہ تفصیلات کوبھی کسی تاویل اورموشگافی کے بغیراپنی تاریخ میں درج کرے گا –اگرصحابہ کرام ہرسال میلاد کا جشن مناتے تویہ کوئی ڈھکی چھپی ,غیراہم بات نہ ہوتی اوراسکا تذکرہ احادیث, آثارصحابہ اورتاریخ اسلام سے متعلقہ مشہورکتابوں میں واضح طورپرکیا جاتا –
اوراہل بدعت کو اس سلسلہ میں کسی گوشے کے غیراہم واقعہ سے استنباط کرنے اورزبردستی میلاد کا جوازثابت کرنے کی نوبت نہ آتی –
بلکہ قدیم اسلامی کتب میں میلاد سے متعلق صحابہ کرام کی سرگرمیوں کا ذکرخیراسی طرح موجودہوتا-جس طرح ہجرت, صلح حدیبیہ,جنگ بدرواحد اورفتح مکہ کے واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں-
رہنمائے دکن کے مضمون پرتبصرہ:
ہم اپنے موقف کومزید واضح اورمدلل کرنے کیلئے رہنمائے دکن میں شائع شدہ ایک مضمون "عیدمیلاد اورامت" پریہاں تبصرہ کرتے ہین جو 23 فروری 2009 کے شمارہ میں شائع ہواتھا-
مضمون کی پیشانی پر"محدث ابن جوزی" کانام اس اندازسے لکھا گیا ہےکہ قارئین انہیں اس مضمون کا خالق سمجھیں جبکہ اس مضمون میں عید میلاد کے جواز اورتائید میں تقریبا تیرہ علماء کے بیانات نقل کئے گئے ہیں-جن میں سے ایک ابن جوزی بھی ہیں- اس مضمون میں مضمون نگاریا مرتب کا نام نہیں ہے- اورایک دھوکہ اس مضمون میں جودیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ عید میلاد کے حق میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بھی دو بیانات توڑمروڑکرنقل کئے گئے ہیں- اس کے باوجود عیدمیلاد کے جواز میں یہ مضمون اپنی تردید آپ ہے- اورقائلین جواز اسکے بعض بیانات کے مطابق بری طرح شریعت کی گرفت میں آتے اورتوہین صحابہ کے مرتکب قرارپاتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام کا دل عشق رسول صلى اللہ علیہ وسلم سے خالى تھا- اسلئے انہوں نے عید میلاد نہیں منائی!
اس مضمون میں امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا درج ذیل بیان نقل کیا گیا ہے – جو قائلین کی نہیں بلکہ مانعین کے لئے مفید مطلب ہے- امام جلال الدین سیوطى رحمہ اللہ لکھتے ہیں:" میرے لئے میلاد کیلئے اجتماع ,تلاوت قرآن, حضورصلى اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات اورولادت پرظاہرہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے جن پرثواب مرتب ہوتا ہے- کیونکہ اسمیں آپ کی تعظیم ومحبت اورآپ کی آمد پرخوشی کا اظہارہے-"(رہنمائےدکن 23فروری 2009)-
اس بیان میں امام جلال الدین سیوطی نے عیدمیلاد کوبدعت حسنہ قراردیا ہے- جبکہ اسکی تائید کی کوکھ سے اسکی زبردست تردید جنم پاتی ہے- عید میلاد کوبدعت حسنہ قراردینا اس بات کوثابت کرتا ہے کہ عیدمیلاد منانے کا طریقہ دورصحابہ میں نہ تھا – یہ ایک بعد کی نئی چیزہے- جبکہ دورصحابہ میں عیدمیلاد منانے کے تمام علل اسباب اورمحرکات یعنى عشق وتعظیم اورمحبت رسول اورآپ کی آمدپرخوشی کا اظہاراورتلاوت قرآن,ایصال ثواب اورغریبوں کو کھانا کھلانا وغیرہ یہ سب چیزیں موجودتھیں اوراس کام میں کوئی امرمانع بھی نہ تھا- اسکے باوجود صحابہ کرام کا عید میلاد نہ منانا جس بات کی غمازی کرتا ہے – وہ زیادہ محتاج وضاحت نہیں! کیا اسکا علم صحابہ کو نہ تھا لیکن بعد کے مسلمانوں کو یہ علم ہوا- اورصحابہ کرام میں عشق رسول کی نعوذباللہ کمی تھی اوربعد کے لوگوں میں زیادتی آگئی؟ صحابہ کرام نے عید میلاد کیوں نہیں منائی تھی؟ یہ بات قابل غوراورہدایت کا بہت بڑاذریعہ بنتی ہے-
ہم امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی بات پرعمل کریں یا اسوہ صحابہ کی اتباع کریں جنہوں نے میلاد النبی نہیں منائی تھی- جب یہ عید منانے والے عاشقان رسول ہیں توصحابہ کرام جو عید نہیں مناتے تھے کیا وہ نعوذباللہ شاتم رسول صلى اللہ علیہ وسلم تھے؟-
دلیل استنباطی نہیں,نص قطعى چاہئے: رہنمائے دکن کے زیرتبصرہ مضمون کا ایک بیان حافظ ابوزرعہ العراقی کا بھی ہے- وہ فرماتے ہیں:" محفل میلاد کے بارے میں سوال کیا گیا کہ یہ مستحب ہے یا مکروہ؟ کیا اسکے بارے میں کوئی نص ہے یا کسی ایسے شخص نے کی ہے جسکی اقتداء کی جائے- آپ نے فرمایا کھانا کھلانا وغیرہ تو ہروقت مستحب ہے- اورپھرکیا ہی مقام ہوگا- جب اسکے ساتھ ربیع الاول میں آپ کے نورکے ظہورکی خوشی شامل ہوجاتی ہے- مجھے تویہ معلوم نہیں کہ اسلاف میں سے کسی نے کیا لیکن اسکے پہلے نہ ہونے سے اسکا مکروہ ہونا لازم نہیں آتا- کیونکہ بہت سے کام اسلاف میں سے نہ ہونے کے باوجود مستحب بلکہ بعض واجب ہوتے ہیں"- (حوالہ بالا)
اس بیان سے بھی واضح طورپریہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام نے عید میلاد یا جشن میلاد نہیں منایا تھا- جب کہ جس عید یا جشن کوعشق رسول کا مظہربتلایا جاتا ہے وہ عشق اورمحبت رسول صلى اللہ علیہ وسلم ,صحابہ وتابعین میں ہم سے بہت زیادہ موجود تھا- لیکن اسکے باوجود انھوں نے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی بطورجشن اورعید نہیں منائی جب کہ وہ کھانا کھلانےکو مستحب ہم سے پہلے اورہم سے زیادہ جانتے تھے-
اوروہ اس موقع پراونٹوں کا جلوس بھی نکال سکتے تھے –لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جس سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے – ہمیں جماعت صحابہ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ بعد کے علماء ومشائخ سوء کی پیروی کا یہاں یہ دلیل غلط اورغیرمتعلق ہے کہ بہت سے کام اسلاف میں سے نہ ہونے کے باوجود مستحب بلکہ بعض واجب ہوتے ہیں"-
اسکا اطلاق عیدمیلاد النبی پرنہیں ہوسکتا- جب کہ عیدمیلاد کا داعیہ اورتمام اسباب دورصحابہ میں پوری طرح موجود تھے اوراس سلسلہ میں کوئی امرمانع بھی نہ تھا- اسکےباوجود صحابہ کرام کا عید میلاد نہ منانے کا واقعہ قائلین کےحق میں نہیں بلکہ مانعین اورمخالفین کے حق میں قوی اورناقابل تردید دلیل شرعی کی حیثیت رکھتا ہے – یہ بات نہیں کی جاسکتی کہ صحابہ کرام عید میلاد منائیں یا نہ منائیں – ہم توضرورمنائیں گے-
اس فضیلت سے صحابہ کرام واقف تھے: اس مضمون میں ملاعلى قاری کا بھی ایک بیان بطوردلیل پیش کیا گیا ہے جویہ ہے:" تمام ممالک کے علماء اورمشائخ محفل میلاد اوراسکے اجتماع کی اس قدرتعظیم کرتے ہیں کہ کوئی ایک بھی اسکی شرکت سے انکارنہیں کرتا- ان کی شرکت سے مقصد اس مبارک محفل کی برکات کا حصول ہوتا "- (حوالہ بالا)
کیا صحابہ کرام اس آخرالذکرعید میلاد کے جواز, فضائل اوربرکات سے واقف نہ تھے؟ اگران کومعلوم تھا توپھروہ اس عظیم کام سے کیوں محروم رہے ؟کیا ان میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی محبت اورتعظیم کی کمی تھی؟ اس بیان کا آغاز ممالک اورعلماء اورمشائخ کی دلیل سے کیا گیا ہے- اگراسکا آغازیوں ہوتا کہ مکہ اورمدینہ میں صحابہ کرام میلاد اوراسکے اجتماع کی تعظیم کرتے تےتھے توکوئی بات ہوتی – صحابہ کرام کا قول وعمل شرعی دلیل اورحجت کی حیثیت رکہتا ہے- جبکہ بعد کے علماء اورمشائخ کا عمل معیارحق اوردلیل شرعی کی حیثیت نہیں رکھتا- ہمارے لئے یہی کا فی ہے کہ صحابہ کرام عید میلاد نہیں مناتے تھے-
یہ بھی شرعی دلیل نہیں: رہنمائے دکن کے اس مضمون میں میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا درد ذیل بیان بھی نقل کیا گیا ہے جس سے جشن میلاد کی تائید نہیں بلکہ الٹی تردید ہوتی ہے :" آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے مہینہ میں محفل میلاد کا انعقاد تمام عالم اسلام کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے – اسکی راتوں میں صدقہ خوشی کا اظہاراوراس موقع پرخصوصا آپ کی ولادت پرظاہرہونے والے واقعات کا تذکرہ مسلمانوں کا خصوصی معمول ہے"-(حوالہ بالا)
اس سلسلہ میں اگربطوردلیل قرآن کی ایک آیت کوئی حدیث یا صحابہ کرام کا عمل ہوتا تو وہ ضرورپیش کیا جاتا- یہ نہیں لکھا جاتا کہ محفل میلاد کا انعقاد تمام عالم اسلام کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے- یہاں ہمیشہ کی بات بھی غلط اورخلاف واقعہ ہے- ہمیشہ سے نہیں بلکہ چھٹی صدی عیسوی کے بعد سے کہئے – اگرکسی بھی ملک کے مسلمان کبھی عید میلاد نہ مناتے لیکن اسکے جوازمیں کوئی حدیث یا اثرہوتا تو یہ عید مشروع اورقابل عمل عبادت ہوتی- اورعید میلاد منانے والے ایک مردہ سنت کوزندہ کرنے والے قرارپاتے-
رہنمائے دکن کے زیرتنقید مضمون میں جملہ تیرہ علماء کے بیانات عید میلاد کے جواز اورتائید میں بطوردلیل نقل کئےگئے ہیں – لیکن ان میں سے ایک عالم نے بھی عید میلاد کے حق میں قرآن ,حدیث ,آثارصحابہ اورائمہ فقہ کی ایک بھی دلیل پیش نہیں کی- ان تمام علماء کا متفقہ طورپریہ خیال ہےکہ عید میلاد کا حکم رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا- اسلئے دورصحابہ میں یہ چیزدوردورتک موجود نہ تھی- تمام علماء نے عید میلاد کوبدعت قراردیا ہے- جن میں قائلین بھی شامل ہیں- جب کہ مسلمانوں کوبدعت پرنہیں بلکہ سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اورسنت صحابہ پرعمل کرنا ہے-
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" جوشخص اسلام میں بدعت ایجاد کرتا ہے اوراسکو کارثواب سمجھتا ہے توگویا وہ یہ دعوى کرتا ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے (معاذاللہ) تبلیغ رسالت میں خیانت کی کہ لوگوں کو پوری بات نہیں بتلائی- کیونکہ اللہ تعالى فرماتا ہے:" آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اورتم پراپنی نعمت پوری کردی"- (الاعتصام للشاطبی:ج:1)
مختصریہ کہ جشن میلاد النبی کی کوئی شرعى حیثیت نہیں ہے- نہ رسول نےاسکی طرف اشارہ کیا ہے اورنہ صحابہ کرام نے اسکو منایا اورنہ ائمہ سلف نے اسکوجائز کہا – چنانچہ میلاد النبی کے تعلق سے کوئی بھی کام کرنا شرعا درست نہیں ہے-
*******************