Monday, June 25, 2012

سورۃ الدخان میں ذکر کی گئي رات سے کیا مقصود ہے ؟ کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے ، یا لیلۃ القدر ؟

سورۃ الدخان میں ذکر کی گئي رات سے کیا مقصود ہے ؟ کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے ، یا لیلۃ القدر ؟
 
پندرہ شعبان کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا یہی لیلۃ القدر ہے جس میں ہرشخص کے سال بھرکے انجام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ؟
سورۃ الدخان میں ذکر کی گئي رات سے کیا مقصود ہے ؟ کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے ، یا لیلۃ القدر ؟

الحمد للہ
نصف شعبان یعنی پندرہ شعبان کی رات میں باقی عام راتوں کی طرح ہی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئي ثبوت نہیں ملتا کہ اس رات لوگوں کے انجام ؛یا تقادیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔

آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 8907 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل فرمایا ہے ، بیشک ہم ڈرانے والے ہیں ، اس رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے } الدخان ( 3 - 4 )

ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : اس میں وارد شدہ رات کے بارہ میں اہل تفسیر نے اختلاف کیا ہے کہ یہ سال کی کونسی رات ہے ، بعض تواسے لیلۃ القدر ہی قرار دیتے ہیں ، اورقتادہ رحمہ اللہ تعالی عنہ سے یہی منقول ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے ۔

اوردوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ : نصف شعبان کی رات ہے ، لیکن اس میں صحیح قول لیلۃ القدر والا ہی ہے ، یہ ایسے ہی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : { بے شک ہم ڈرانے والے ہیں } ۔ دیکھیں تفسیر طبری ( 11 / 221 )۔

اوراللہ تعالی کا فرمان :

{ اس میں ہر مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے } حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں کہا ہے کہ :

معنی یہ ہے کہ اس رات میں اس سال کے معاملات کومقدر کیا جاتا ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اس رات میں ہر مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے } امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کلام ہی اس سے شروع کرتے ہوئے کہا ہے : لیلۃ القدر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں فرشتے اقدار کولکھتے ہیں ، اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :

{ اس میں ہرمضبوط کام کافیصلہ کیا جاتا ہے } ۔

عبدالرزاق اوردوسرے مفسرین نے صحیح اسانید کے ساتھ اسے مجاھد ، عکرمہ اورقتادہ وغیرہ سے روایت کیا ہے ۔

توربشتی کا قول ہے ، یہاں القدر دال پر جزم کے ساتھ وارد ہوئي ہے ، اگرچہ القدردال پر زبر کے ساتھ شائع اورمشہور ہے جس کا معنی فیصلے کا قصد وارادہ کرنا ہے تواس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہيں بلکہ اس سے توجوفیصلے ہوچکے ہیں اس برس میں ان کا اظہار اورتحدید مراد ہے تا کہ جوکچھ ان کی طرف بھیجا جارہا ہے وہ مقدار کے ساتھ حاصل ہو ۔

اورلیلۃ القدر کی بہت عظيم فضیلت ہے اوراس کے لیے ہے جواس میں عمل کرے اورعبادت کرنے میں بھی کوشش کرے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ یقینا ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل کیا ہے ،اور توکیا سمجھے کہ قدر والی رات کیا ہے ؟ قدروالی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ہر کام کوسرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح جبریل علیہ السلام اترتے ہیں ، یہ رات سرا سر سلامتی کی ہوتی ہے ، اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے } سورۃ القدر ۔

لیلۃ القدر کی فضیلت میں بہت ساری احادیث وارد ہيں جن میں مندرجہ ذیل حدیث بھی شامل ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے بھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ، اورجس نے بھی ایمان اوراجروثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے تواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر ( 1768 ) ۔

واللہ اعلم .


الشیخ محمد صالح المنجد


 
 
عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرن  ( 8907
 
ميں نے ايك كتاب ميں پڑھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا بدعت ہے، اور ايك دوسرى كتاب ميں لكھا تھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا مستحب ہے... برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كے متعلق قطعى حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى صحيح اور مرفوع حديث ثابت نہيں، حتى كہ فضائل ميں بھى ثابت نہيں، بلكہ اس كے متعلق كچھ تابعين سے بعض مقطوع آثار وارد ہيں، اور ان احاديث ميں موضوع يا ضعيف احاديث شامل ہيں جو اكثر جہالت والے علاقوں ميں پھيلى ہوئى ہيں.

ان ميں مشہور يہ ہے كہ اس رات عمريں لكھى جاتى ہيں اور آئندہ برس كے اعمال مقرر كيے جاتے ہيں.... الخ.

اس بنا پر اس رات كو عبادت كے ليے بيدار ہونا جائز نہيں اور نہ ہى پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا جائز ہے، اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا بھى جائز نہيں ہے، اكثر جاہل لوگوں كا اس رات عبادت كرنا معتبر شمار نہيں ہو گا "

واللہ تعالى اعلم

الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ

اگر كوئى شخص عام راتوں كى طرح اس رات بھى قيام كرنا چاہے ـ اس ميں كوئى اضافى اور زائد كام نہ ہو اور نہ ہى اس كى تخصيص كى گئى ہو ـ تو جس طرح وہ عام راتوں ميں عبادت كرتا تھا اس ميں بھى جائز ہے.

اور اسى طرح پندرہ شعبان كو روزے كے ليے مخصوص كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر وہ اس بنا پر روزہ ركھ رہا ہے كہ يہ ايام بيض يعنى ہر ماہ كى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كو روزہ ركھنا مشروع ہے، يا پھر وہ جمعرات يا سوموار كا روزہ ركھتا تھا اور پندرہ شعبان اس كے موافق ہوئى تو اس اعتبار سے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں اس كا اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ اس سے اسے اجروثواب زيادہ حاصل ہو گا.

واللہ اعلم .


الشيخ محمد صالح المنجد

--
   Your brother in Islam
~*Syed Ibrahim (Talha)~*
 
 



 
 
 

No comments: